24 نومبر، 2025، 9:09 PM

حضرت فاطمہ زہرا (س) اور تاریخ کی قیادت 

حضرت فاطمہ زہرا (س) اور تاریخ کی قیادت 

عصرِ حاضر میں حتیٰ امام زمانہ (عج) نے بھی ایک واضح روایت میں حضرت زہرا (س) کو اپنے لئے "اُسوۂ حسنہ" قرار دیا ہے؛ یہ روایت بتاتی ہے کہ اسوہ فاطمی نہ صرف کارآمد ہے بلکہ آخرالزمان میں انسان سازی کا معیار ہے۔  

مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک، مینا یاری: ان دنوں جب عالمِ اسلام حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شہادت کے سوگ میں ہے، اس عظیم خاتون کی سیرت کا دوبارہ مطالعہ صرف ایک سوگواری نہیں بلکہ ایک فکری، ثقافتی اور تاریخی ضرورت ہے۔ کیونکہ ایامِ فاطمیہ نہ صرف رسولِ اکرم (ص) کی دختر کی مظلومیت کی یاد دہانی ہے بلکہ انسانی "نمونہ" کے تصور پر دوبارہ غور کرنے کا موقع بھی ہے؛ ایسا نمونہ جس کی آج کے انسان کو پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔  

"نمونہ" اسلامی نقطۂ نظر سے کوئی ناقابل فتح چوٹی نہیں بلکہ ایک حقیقی، قابلِ حصول اور سمت و سو دینے والا سانچہ ہے جو فکر، رجحان اور عمل کو رہنمائی دیتا ہے۔ نمونہ وہ بلند نقطہ ہے جس کی طرف ہر انسان اپنی استعداد کے مطابق حرکت کر سکتا ہے اور خود کو فاصلے کے درے سے نکال سکتا ہے۔ نمونہ وہ چیز ہے جس کے قریب جایا جا سکتا ہے، صرف تعریف و ستائش کی حد تک محدود رکھنا درست نہیں۔  

حضرت فاطمہ زہرا (س) بالکل ایسا ہی نمونہ ہیں؛ ایک چوٹی جس کی طرف مرد و عورت، مسلمان و غیرمسلمان سب اپنے رشد و ہدایت کا راستہ متعین کر سکتے ہیں۔ حضرت کا نمونہ ہونا کوئی نمائشی یا جذباتی مقام نہیں بلکہ ان کی مختصر مگر عمیق اور اثرگذار زندگی کی حقیقت پر مبنی ہے؛ ایسی زندگی جس میں خاندان، معاشرہ، تربیت، مبارزہ، علم، عبادت اور عدالت سب ایک ساتھ جمع ہیں۔  

عورت اور تاریخی قیادت 
 
آج کے زمانے میں جس حقیقت کو زیادہ نمایاں کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ حضرت زہرا (س) اپنی کامل نسوانی خصوصیات کے ساتھ تاریخ کی اثرگذار ترین سماجی و تاریخی اثرگذار شخصیات میں سے تھیں۔  

عورت عورت رہتے ہوئے بھی ایک تاریخی تحریک کی رہنما بن سکتی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے بہت سے ماڈرنزم کے شکار لوگ نہیں سمجھ سکتے اور نہ ہی تحجر زدہ دقیانوسی سوچ کے مالک افراد پہچان پاتے ہیں۔  

حضرت نے ثابت کیا کہ نسوانیت نہ سوچ و فکر پر تاکہ لگا سکتی ہے، نہ سماجی ذمہ داریوں سے روکتی ہے، نہ مبارزے سے بری الذمہ قرار دیتی ہے اور نہ ہی بڑے تاریخی موڑ پر فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں رکاوٹ کھڑی کرتی ہے۔ دراصل حضرت فاطمہ (س) نے دنیا کو دکھایا کہ عورت عورت رہتے ہوئے بھی تاریخ کی رہنما بن سکتی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے بعض ماڈرن اور بعض دقیانوسی طرز تفکر پہچاننے سے قاصر ہے۔  

یہی وہ نقطہ ہے جہاں حقوقِ نسواں کے دعویدار ایک بنیادی خطا میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ عورت کے فعال کردار کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ گویا اس کی شرط نسوانیت کو کنارے لگانا اور عورت خود کو اپنی نسوانی شناخت محروم کرنا ہے؛ گویا عورت اثرگذار ہونے کے لیے مرد جیسی بنے یا اپنی اصل کردار سے دور ہو۔ جبکہ سیرتِ فاطمی نے دکھایا کہ نسوانیت اور فعال کردار نہ صرف متعارض نہیں بلکہ ایک ساتھ انسانی و سماجی بلوغت کی چوٹی بنا سکتے ہیں۔  

اس کے برعکس، دقیانوسی طرز تفکر محدود دائرے میں حضرت زہرا (س) کے کردار کو صرف گھر اور گھرداری تک محدود کرتے ہیں؛ گویا ان کی سماجی موجودگی اور جهاد فاطمی کے لئے ان کی شخصیت کے دائرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ فکر بھی حقوقِ نسواں کے افراطی طرز تفکر کی طرح حقیقت کے ایک حصے کو حذف کرتی ہے اور مسلمان عورت کی ایک ناقص و ناکارآمد تصویر پیش کرتی ہے۔  

حضرت فاطمہ (س): ہر زمانے میں اسوہ کامل 

اسی وجہ سے اسوہ فاطمی نہ صرف عصرِ نبوی تک محدود ہے بلکہ اپنی انسانی و الٰہی گہرائی کی بنا پر ہر زمانے کے لیے کارآمد ہے۔ عصر حاضر کے رہنما اور مفکرین بارہا تاکید کر چکے ہیں کہ آج دنیا عورت کی شناخت کے حوالے سے بحران کا شکار ہے، ایسے میں ایک پاکیزہ اور کامل "مسلمان عورت" کے نمونے کی ضرورت رکھتی ہے؛ ایسا نمونہ جس کی جگہ کوئی مغربی اور میڈیا زدہ نمونہ نہیں لے سکتا۔ دوسری طرف حضرت زہرا (س) کا مقام جنسیت سے بالاتر ہے اور وہ تمام آزاد اندیشوں کے لیے نمونہ ہیں۔ عصرِ حاضر میں حتیٰ امام زمانہ (عج) نے بھی ایک واضح روایت میں حضرت زہرا (س) کو اپنے لئے "اُسوۂ حسنه" قرار دیا ہے؛ یہ روایت بتاتی ہے کہ اسوہ فاطمی نہ صرف کارآمد ہے بلکہ آخرالزمان میں انسان سازی کا معیار ہے۔  

لیکن حضرت زہرا (س) سے کو اسوہ قرار دینا صرف جذباتی تعریف یا احساساتی عادت کی حد تک نہیں ہے۔ حقیقی اسوہ بنانا ان کی سیرت پر ہمہ جہت اور دقیق نظر کا تقاضا کرتی ہے۔ صرف ایک پہلو کو پکڑ کر باقی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم ان کے سماجی جهاد کی بات کریں لیکن نسل پروری اور معنویت کو بھول جائیں، یا برعکس، اگر صرف اشک و مصائب پر توجہ کریں اور حق و عدالت کے لیے ان کی علنی و صریح مجاہدت کو فراموش کریں، تو ایک ناقص اور تحریف شدہ تصویر پیش ہو گی۔

تاریخ میں مرد و زن کے لیے درس مجاهدت

اسوہ فاطمی کے لیے ضروری ہے کہ ہم خود کو ان کے حالات پر پرکھیں؛ ایسے حالات جو اگرچہ زمانی اعتبار سے مختلف ہیں لیکن ماہیت کے اعتبار سے ہر دور میں تکرار ہوتے ہیں: تحریف کے مقابلے میں ذمہ داری، معاشرے کو آگاہی دینا، حق کا دفاع، تحول طلبی، ظلم کے مقابلے میں مزاحمت، اور ساتھ ہی گھر کی گرمی اور نسل کی تربیت۔ یہی وہ روحی پرورش ہے جو ایک عام فرد کو اخلاقی و سماجی قهرمان میں بدل دیتی ہے۔  

یہ وہ مسلسل جهاد ہے جو حضرت کی پوری زندگی میں جاری رہا؛ رات کی عبادت سے دن کی بصیرت افروزی تک، ولایت کے دفاع سے سخت ترین جسمانی و روحی دباؤ تک۔ جهاد جس کا مطلب اسلامی نقطہ نظر سے ایمان، عقلانیت اور تکلیف پر مبنی ایک نہ تھمنے والی حرکت ہے۔ حضرت فاطمہ (س) نے حق کے دفاع میں کچھ کم نہیں کیا؛ نہ دورانِ حمل، نہ سماجی دباؤ میں اور نہ ان لمحوں میں جب جان بھی خطرے میں تھی۔  

ان کی شبانہ تشییع و تدفین، جو مظلومیت اور مجاہدت کا سب سے بڑا تاریخی سند ہے، دکھاتی ہے کہ حرکتِ فاطمی شہادت کے بعد بھی جاری ہے؛ ایک بلند فریاد جو ظلم کو رسوا اور حق کو ہمیشہ زندہ رکھتی ہے۔

News ID 1936709

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha